فاتح بنیں


زندگی میں صرف غالب آنے والوں کو ہی انعام دیا جاتا ہے، محنت کا بدلہ دینے والا صرف اللہ ہے، لیکن اس دنیا میں نہیں، اس دنیا میں آپ کو صرف نتائج کی شکل میں بدلہ ملتا ہے، اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کوشش کے بارے میں فرمایا:

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ – نجم 53:39

اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(اچھا یا برا۔

غالب آنے والوں کی درجہ بندی اس چیلنج کی شدت سے کی جاتی ہے جس پر انہوں نے قابو پایا، جتنا بڑا چیلنج اتنا ہی بڑا اعزاز، ماؤنٹ ایورسٹ 8 کلومیٹر بلند ہے، اگر میں 10 کلومیٹر پیدل چلوں اور یہ دعویٰ کروں کہ مجھے ایوارڈ دیا جائے کیونکہ میں نے سر ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نورگے سے زیادہ  پیدل چلا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے، اگر میں بحث کرنے کی کوشش کروں اور کہوں کہ وہ اور میں، دونوں زمین ہی پر تو چلے،تو لوگ اور بھی زور سے ہنسیں گے، کیونکہ یہ زمین پر فاصلہ نہیں بلکہ زمین کا زاویہ ہے جو ان کے کارنامے کو یادگار اور متاثر کن بناتا ہے، اگر وہ چڑھنے کی کوشش کرتے لیکن چوٹی تک پہنچنے میں ناکام رہتے تو کسی کو یاد نہ ہوتا، اگر وہ ہیلی کاپٹر سے چوٹی پر اتارےجاتے، تو یہ ‘پہاڑ کی پیمائش’ کے طور پر شمار نہیں ہوتا، کام کی مشکل ہی اسے باعزت اور قابل قدر بناتی ہے، لہذا اپنے آپ سے پوچھنے کی پہلی چیز یہ ہے کہ میری اپنے آپ سے اندرونی گفتگو کیا ہے؟’ اسے سننے کے لیے، آپ کو اس بیرونی شور کو بند کرنا ہوگا جو ہم نے اپنی مرضی سے اپنے آپ پر مسلّط کیا ہے، آپ اپنے دل کی بات سن سکتے ہیں، یا آپ اپنے فون کو سن سکتے ہیں، آپ دونوں  ایک ساتھ نہیں کر سکتے،   براہ مہربانی غور کریں آپ اپنے آپ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں، ‘میں کامیاب ہو سکتا ہوں’؟ یا ‘کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں‘ کیونکہ میں ضرور ناکام ہو جاؤں گا،’ دونوں جملےحقیقت نہیں ہیں، وہ امیدیں ہیں، لیکن آپ کے لیے، دونوں درست ہو سکتے ہیں، اس پر منحصر ہے کہ آپ کس کو اکثر استعمال کرتے ہیں، میرے دوست ڈاکٹر فریڈولن سٹاری مجھے بتاتے ہیں کہ جرمن زبان میں ایک کہاوت ہے، “امید آخر میں مرتی ہے،” ہمیں امید کو کبھی مرنے نہیں دینا چاہیے، ہمیں امید رکھنا چاہیے اور اس امید کو حقیقت بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے، لہذا، پوچھیں کہ آپ اپنے آپ سے کیا کہہ رہے ہیں. یہ وہیں سے شروع ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اور توکل کے تعلق کے بارے میں فرمایا:

إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتُهُۥ زَادَتْهُمْ إِيمَـٰنًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

انفال 8:2

مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں اور جب انہیں اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، اور وہ اپنے رب پرمکمل بھروسہ کرتے ہیں۔

آپ  برائے مہربانی اپنے آپ سے پوچھیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پر کھڑے ہو کر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو آپ کے دل پر کیا گزری ہو گی؟ جس چیز نے ان کو برقرار رکھا اور سہارا دیا وہ اللہ سے آپ کا تعلق تھا، اللہ آپ کے لیے حقیقت تھے، ابن عباس (رضی اللہ عنہما) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو فرماتے:

اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ، لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ ـ أَوْ لاَ إِلَهَ غَيْرُكَ ـ ‏"

ترجمہ(  اے میرے اللہ ! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے ، تو آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے آسمان اور زمین اور ان کی تمام مخلوقات پر حکومت صرف تیرے ہی لیے ہے اور تعریف تیرے ہی لیے ہے ، تو آسمان اور زمین کا نور ہے اور تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے ، تو سچا ہے ، تیرا وعدہ سچا ، تیری ملاقات سچی ، تیرا فرمان سچا ہے ، جنت سچ ہے ، دوزخ سچ ہے ، انبیاء سچے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور قیامت کا ہونا سچ ہے ، اے میرے اللہ ! میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں ، تجھی پر بھروسہ ہے ، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں ، تیرے ہی عطا کئے ہوئے دلائل کے ذریعہ بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں ، پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اور جو بعد میں ہوں گی ان سب کی مغفرت فرما ، خواہ وہ ظاہر ہوئی ہوں یا پوشیدہ ، آگے کرنے والا اور پیچھے رکھنے والا تو ہی ہے ، معبود صرف تو ہی ہے ۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ ایک تصور، ایک خیال ہیں ، کیا اللہ تعالیٰ  ہمارے لیے حقیقت ہیں ؟ اس بات کی نشانی کہ اللہ تعالیٰ  ہمارے لیے حقیقت ہیں ، ہمارے اعمال میں مضمر ہے، جن کے لیے اللہ تعالیٰ حقیقت ہیں وہ کبھی اللہ تعالیٰ  کی نافرمانی نہیں کرتے، وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے لیے کچھ نہیں کرتے، یہی تقویٰ ہے، یہ اللہ تعالیٰ  کا خوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کا خوف ہے ، چونکے ہم اللہ تعالیٰ  کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔

سب سے مشکل کام لوگوں کے ذہنوں، عقائد اور رویوں کو بدلنا ہے، لیکن یہ وہ کام تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کام سونپا گیا لیکن اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیےکوئی مادی مدد نہیں دی گئی،

یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی مورخ الفونس ڈی لامارٹین جیسے شخص نے بھی جو اسلام پر بہت تنقید کرتا تھا، اپنی کتاب تاریخ ترکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اگر مقصد کی عظمت، اسباب کی کمی اور حیران کن نتائج تین معیار ہیں ایک انسانی ذہانت کا، تو کون تاریخ کے کسی عظیم انسان کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے موازنہ کرنے کی جرات کر سکتا ہے؟”

یہیں سے عقیدہ کے یقین کا مسئلہ آتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت میں سب سے پہلی اور سب سے زیادہ امتیازی خوبی، ان کا اپنے پیغام کی سچائی اور اہمیت پر مکمل یقین تھا، اس کے بغیر وہ کبھی بھی اپنی کوشش کو جاری نہیں رکھ سکتے تھے اور کامیابی کا تقریباً کوئی نشان نہ ہونے کے باوجود مسلسل اپنی پوری کوشش کرتے رہے، یہی مقصد کی طاقت ہے، جب آپ اپنے مقصد کو جانتے ہیں، تو یہ آپ کو مضبوط کرتا ہے ، یہ آپ کو توجہ مرکوز رکھنے اور  اپنے خوف سے لڑنے میں مدد کرتا ہے۔

 مشہور مصنف مارک ٹوین نے کہا تھا کہ ’’ہر آدمی کی دو سالگرہ ہوتی ہے، جس دن وہ پیدا ہوا تھا اور جس دن اسے پتہ چلا کہ کیوں، ”

میں اپنے آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ میں کس دن پیدا ہوا تھا، لیکن کیا میں جانتا ہوں کہ میں کیوں پیدا ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس لیے پیدا کیا؟ مجھے اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے جس کی بنیاد پر میرا فیصلہ کیا جائے گا؟

خاموشی سے بیٹھیں اور اپنے آپ سے تین سوال پوچھیں:

  1. میں کیوں زندہ ہوں؟
  2. کیا کھو  جائیگا گا اور کس کے لیے جب میں اس زندگی سے رخصت ہو جاؤں گا؟،
  3. میں اپنے وجود کی وجہ کو پورا کرنے کے لیے کیا کر رہا ہوں؟

یاد رکھیں کہ اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے، لیکن یہ سب سے اہم چیز ہے جو آپ کر سکتے ہیں اور جو  آپ کو سب سے بہترین نتائج دے گا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی عمر کتنی ہے، فرق پڑتا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی قابل قدر ہو یا نہیں، یہ آپ کی حقیقی سالگرہ ہوگی، وہ دن نہیں جس دن آپ پیدا ہوئے تھے، بلکہ جس دن آپ کو معلوم ہوا کہ کیوں پیدا ہوئے ، جو زندگی، ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے گزاری گئی، انسان کی زندگی ہے، جو زندگی ہر خواہش اور شوق کو پورا کرنے کے لیے گزاری گئی جانور کی زندگی ہے، ہمیں اپنے لیے انتخاب کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے زندگی کا مقصد بیان کیا اور فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ

مَآ أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَآ أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ

إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلرَّزَّاقُ ذُو ٱلْقُوَّةِ ٱلْمَتِينُ

ذاریات :56-58

اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر وہ میری عبادت کریں، میں ان سے (اپنے لیے یا اپنی مخلوق کے لیے) کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ ہی میں یہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھے (یا مخلوق کو) کھلائیں، بے شک اللہ سب کو رزق دینے والا، قدرت کا مالک، سب سے زیادہ طاقت والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی رضا کے لیے پیدا کیا ہے، اُس نے باقی دنیا کو اُن لوگوں کی خدمت کے لیے بنایا جو اُسے خوش کرتے ہیں، جب ہم اللہ تعالیٰ  کو راضی کرنے میں مشغول  ہوتے ہیں تو سب کچھ اپنی جگہ پر آ جاتا ہے، ہم مطمئن رہتے ہیں، معزز  رہتے ہیں، اثر و رسوخ کے مالک بنائے جاتے ہیں، دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہتے ہیں، اور خوش  رہتے ہیں، جب ہم ان سب کو اپنے طور پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ ہمارے اعمال اللہ تعالی کو راضی کرتے ہیں یا نہیں تو ہم تناؤ، پریشانی، خوف، ذلت اور افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں، جو کچھ اللہ تعالی نے ہمارے لیے پہلے ہی لکھ دیا ہے اس کا پیچھا کرنا اور اللہ تعالی نے جس چیز پر ہمیں قابو میں دیاہے اسے نظر انداز کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، اللہ تعالی نے اس زندگی میں ہمارے لیے جو کچھ چاہا لکھ دیا، اور ہمیں یہ اختیار دیا کہ ہم آخرت میں اپنے لیے جو چاہیں لکھیں، اگر ہم اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں تو ہم اس زندگی میں مطمئن ہوں گے اور آخرت میں جنت حاصل کریں گے، اگر نہیں، تو اس کے برعکس ہونے کا امکان ہے، مرضی ہماری ہے۔

امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کس طرح پوری قناعت کی زندگی گزاری اور کسی چیز کے بارے میں آپ کو تناؤ سے دوچار نہیں ہونا پڑا؟ انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور  عبادت کوئی اور میرے لیے نہیں کر سکتا، اس لیے میں اللہ تعالی کی عبادت پر توجہ دیتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالی نے میرے لیے جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی اور نہیں لے سکتا، اس لیے میں اس کی فکر نہیں کرتا، میں جانتا ہوں کہ ایک دن میں مر جاؤں گا، اس لیے میں اس دن کی تیاری کرتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالی مجھے دیکھ رہا ہے، اس لیے مجھے ہر وہ کام کرتے ہوئے شرم آتی ہے جس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے ،” میں اپنے آپ کو اور آپ کو اس پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔

اسلام ہمیں دنیا میں کسی کام سے نہیں روکتا بشرطیکہ وہ حلال ہو، اللہ تعالی نے ہمیں اس دنیا میں رہنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے پیدا کیا ہے، اور اس لطف اندوزی کے لیے سرحدیں بنائیں، یہ اللہ تعالی کی ممانعتیں ہیں، جب تک ہمارے اعمال ان حدود میں ہیں اور ہم ان چیزوں سے دور رہیں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، یہ ان اعمال میں شمار ہوں گے جو ہمارے لیے جنت حاصل کریں گے، اس کا برعکس بھی اتنا ہی سچ ہے، انتخاب ہمارا ہے، لہذا دانشمندی سے انتخاب کریں، بہت اہم: تحریری پیڈ اور پنسل ہاتھ میں رکھیں، اپنے مقصد کے بارے میں اپنے خیالات لکھیں، میں پنسل کہتا ہوں کیونکہ آپ کچھ چیزوں کو مٹا کر ان پر لکھنا چاہیں گے، وہ ضرور کریں،

ہچکچاہٹ نہ کریں، آخر میں، 8-10 الفاظ میں  اپنےمقصد کو بیان کریں ، اپنے آلات پر ایسا کرنے کی کوشش نہ کریں، کاغذ اور پنسل کا استعمال کریں، لکھنے کے بارے میں کچھ ایسا ہے جو دماغ کی طاقت کو دعوت دیتا ہے جو فون یا ٹیبلٹ کے ساتھ نہیں ہوتا ہے، لکھیں، یہ ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔

پھر اپنے مقصد کے بیان کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھیں، ” آگے بڑھنے کے لیے مجھے کونسی تین چیزیں  کرنی ہیں؟” یاد رکھیں، ہم ‘ آخری نتیجہ’ کی بات نہیں کر رہے ہیں ، ہم اس عمل  کی بات کر رہے ہیں  جو ہمیں آگے لے جائے گا، اگر آپ کسی منزل کی طرف گاڑی چلا رہے ہیں، اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا آپ صحیح سمت میں جا رہے ہیں، آپ شروع میں اپنی منزل کے نشانات تلاش نہیں کرتے ، آپ اپنی منزل کے راستے میں پہلے شہر کے نشانات تلاش کرتے ہیں، پھر اگلا اور اسی طرح، یہاں تک کہ آپ کو اپنی منزل کے آثار نظر آنے لگیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں صراط مانگنا سکھایا، الصراط المستقیم، سیدھا راستہ، ثابت قدمی کا راستہ، انبیاء کا اور ان لوگوں کا جن پر اللہ تعالی نے کرم کیا، اسلام میں راستہ اور منزل دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں، طریقے اور ذرائع، لہذا، مقصد کو اپنے سامنے رکھیں اور پوچھیں، “اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مجھے سب سے پہلے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟” یہ آپ کے جاگنے کے وقت کو تبدیل کرنا ہو سکتا ہے، یا آپ کا روزانہ کا شیڈول، یا اپنے دوستوں کی فہرست، عام طور پر، یہ تینوں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔

یہ تبدیلی تکلیف دہ ہو سکتی ہے. اس لیے آپ کو مقصد کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے، یہ آپ کو یاد دلائے گا کہ کام کی مشکل ہی اسے باعزت اور قابل قدر بناتی ہے۔

اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھیں، ” آگے بڑھنے کے لیے مجھے تین چیزیں کیا کرنی ہیں؟” اپنی فہرست میں پہلی چیز پر توجہ دیں، جب آپ اسے ختم کر لیں تو اگلے پر جائیں، اگر آپ کو خلل پڑتا ہے، تو واپس جائیں، اور وہ پہلا کام مکمل کریں، اپنی ترجیحی فہرست میں کسی کام کو کبھی نہ چھوڑیں، چاہے وجہ کچھ بھی ہو، ان وجوہات کو ختم کر دیں جو آپ کو اپنی ترجیحات سے دور لے جاتی ہیں، فوکس غیر ضروری چیزیں نظر انداز کرنے کا فن ہے، ملٹی ٹاسکنگ خلفشار کا دوسرا نام ہے، جب آپ ایک چیز پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو آپ کو جان بوجھ کر باقی تمام چیزوں کو نظر انداز کرنا چاہیے، یوٹیوب پر جائیں اور چیتے یا شیروں کے شکار کی ویڈیوز دیکھیں، دیکھیں کہ ارتکاز کا کیا مطلب ہے، چیتے اور شیر ارتکاز کی قدر جلد سیکھ لیتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر وہ بھوکے مر جاتے ہیں، انسانوں کو ارتکاز نہ ہونے کے مسئلے کا پتہ چلتا ہے جب ان کی زندگی کے اختتام پر، وہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں اور وہ سب کچھ دیکھتے ہیں جو وہ حاصل کر سکتے تھے، کسی بھی زبان میں سب سے افسوسناک جملہ ہے، ‘اگر صرف’، مجھ پر یقین کرو، تم وہاں نہیں جانا چاہتے، یہ ابھی آپ کے ہاتھ میں ہے، لہذا، توجہ مرکوز کرنا سیکھیں. زندگی کی ہر چیز میں کامیابی کا راز یہی ہے، جیتنے والے ایک کام پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جب تک کہ یہ مکمل نہ ہو جائے، ہاری ہوئی تتلیاں پھول سے پھول تک اڑتی رہتی ہیں، یہاں تک کہ وہ مر جائیں اور پیچھے کچھ نہیں چھوڑیں، جیتنے والوں اور ہارنے والوں کے درمیان فرق ارتکاز ہے، اگر آپ میں بندر جیسا ارتکاز ہے تو زندگی آپ کو صرف مونگ پھلی دے گی۔

انٹرنیٹ کی بدولت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کے ذرائع ہی کئی گنا بڑھے ہیں اور بدل گئے ہیں، سیکھنے کا قانون تبدیل نہیں ہوا ، کشش ثقل کے قانون کی طرح، یہ ایک بنیادی قانون ہے، یہ کبھی نہیں بدلتا، سیکھنے کا قانون یہ ہے کہ سیکھنا اخلاص، ارتکاز اور استقامت کا عنصر ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ معلومات تک رسائی کے لیے جو بھی ذرائع استعمال کرتے ہیں، یہ گہرے غور و فکر، سوچ سمجھ کر مشق کرنے اور اسباق کو تصور کرنے کے بعد ہی علم میں بدلتا ہے، پھر جب اسے ایک طویل وقت کے ساتھ لاگو کیا جاتا ہے، اور اسباق کو مسلسل سیکھا جاتا ہے، تو یہ حکمت میں بدل جاتا ہے، ہم معلومات کو علم کے ساتھ الجھاتے ہیں اور حکمت کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار وہی غلطیاں کرتے ہیں اور بلاوجہ نقصان اٹھاتے ہیں، گیجٹس کو بھول جائیں اور ارتکاز پیدا کریں۔

، اللہ تعالیٰ نے نماز میں ارتکاز کا ذکر فرمایا:

ٱلَّذِينَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ خَـٰشِعُونَ

مؤمنون 23: 2

جو اپنی نمازیں پورے خلوص اور پوری تواضع کے ساتھ پڑھتے ہیں۔

نماز میں خشوع ارتکاز کا عنصر ہے، اندرونی اور بیرونی تمام خلفشار کو نظر انداز کرنے اور صرف اللہ پر توجہ مرکوز کرنے کا نام خشوع ہے،

آج ہم ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں ارتکاز کی کمی کو ایک خوبی بنا دیا گیا ہے، اساتذہ، سرپرستوں، یہاں تک کہ والدین کو بتایا جاتا ہے کہ بچے کسی بھی بات یا کام پر تیس سیکنڈ سے زیادہ توجہ مرکوز نہیں کر سکتے ، آپ کو آپ کو پوچھنا چاہئے کہ کس کے بچے ہیں؟ انسانی بچے یا بندر کے بچے؟ حقیقت یہ ہے کہ ارتکاز، پٹھوں کی طرح، محنت سے بنتا ہے ، اگر آپ نے اپنے بچوں کو تیس سیکنڈ  سے زیادہ ارتکاز اور تحمل نہیں سکھایا تو آپ کو یہی ملے گا، ایک لمحے کے لیے رکیں اور پوچھیں کہ وہی بچے جن کے بارے میں آپ دعویٰ کرتے ہیں،  کہ تیس سیکنڈ  سے زیادہ کوئی فائدہ مند بات نہیں سن سکتے، ٹی وی اسکرین پر FIFA، Superbowl، 20/20 آئی پی ایل کرکٹ دن یا رات کے کسی بھی وقت گھنٹوں چپکے بیٹھ کر  کیسے دیکھتے ہیں؟

تو، یہ توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کا یا رضامندی کا سوال ہے؟ رضامندی وجہ پر منحصر ہے، اگر ہم اس میں قدر دیکھتے ہیں تو ہم توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، ہم کس چیز کی قدر دیکھتے ہیں، جس کے لیے ہم اپنے پاس موجود واحد غیر قابل تجدید وسیلہ خرچ کرنے کے لیے  تیار ہیں،  یہ غیر قابل تجدید وسیلہ یعنی ہمارا وقت زندگی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ وقت کے ختم ہونے کا نام موت ہے ، اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ واقعی یہاں کیا دیکھ رہے ہیں؟ آپ غلاموں کی تخلیق کو دیکھ رہے ہیں جو بدمعاش قائدین کے ہاتھ کے کھلونے ہونگے. جیسا چاہا استعمال کر لیا ، غلامی ایک ذہنیت ہے، کیا آپ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے یہ چاہتے ہیں، اگر نہیں، تو اس کے بارے میں کچھ کیجئے. یاد رکھیں کہ غلامی کی زنجیریں ذہن میں ہیں، اس کا علاج یہ ہے کہ آپ فیصلہ کریں کہ آپ کے لیے کیا اچھا ہے اور اسے کرنا سیکھیں. ہر نئی چیز، بغیرکسی استثناء کے، سب سے پہلے تکلیف دہ ہوتی ہے، ہر معاملے کے بعد ,ہر وہ چیز جس پر آپ نے وقت گزارا، ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھیں، “مجھے اس سے کیا حاصل ہوا؟ میں نے کیا سیکھا؟” یہ آپ کی زندگی بدل دے گا، مکمل طور پر. قربانی بھول جائیں، قربانی صرف وہی ہے جو تندوری چکن نے آپ کے لیے کی، ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ایک ممکنہ سرمایہ کاری ہے، ہماری اپنی زندگی میں سرمایہ کاری، تب آپ قدرتی طور پر ROI، سرمایہ کاری پر کمائی کے بارے میں سوچیں گے، قربانی کی کمائی نہیں ہوتی، سرمایہ کاری کی کمائی ہوتی ہے، اگر یہ منفی ہے تو اس سے ہٹ کر کہیں اور سرمایہ کاری کریں۔

دوسرا سب سے اہم کام مسئلہ حل کرنے والی ذہنیت کو تیار کرنا ہے، فیصلہ کریں کہ آیا آپ ماسٹر بننا چاہتے ہیں یا شکار، جب کسی چیلنج کا سامنا ہو تو دیکھیں کہ آپ کے اختیار میں کیا ہے اور اسے کریں، جس چیز پر آپ قابو نہیں پا سکتے اس میں نہ پھنسیں، لوگ کبھی کبھی اپنے اردگرد موجود مصیبتوں کو دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں، ‘خدا تمام بیماروں اور بھوک سے مرنے والے لوگوں کے بارے میں کچھ کیوں نہیں کرتا؟’ جواب ہے، ‘خدا نے پہلے ہی کچھ کر دیا ہے، اس نے آپ کو پیدا کیا اور آپ کو کم از کم ایک بھوکے کو کھانا کھلانے، ایک بچے کی تعلیم کا خرچہ، ایک بیمار کے ہسپتال کا بل ادا کرنے کے ذرائع عطا فرمائے، اگر آپ سو آدمیوں کو نہیں کھلا سکتے تو ایک کو کھلائیں، اگر آپ اسکول نہیں بنا سکتے تو ایک بچے کے اسکول کی فیس ادا کریں، ہم مسئلہ کو عالمگیریت دیتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر اپنی بے عملی کا جواز پیش کرتے ہیں، “آخر میں صرف ایک شخص ہوں، میں کچھ نہیں کر سکتا- ” اس کے برعکس ، ماسٹرز عالمی مسئلے کو مقامی بناتے ہیں اور پوچھتے ہیں، “میں کیا کر سکتا ہوں؟” وہ لوگ جو مدد کرنا چاہتے ہیں، دوسروں پر الزام نہ لگائیں، شکایت نہ کریں، بلکہ خود سے پوچھیں، ‘میں کیا کر سکتا ہوں؟’ اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے، کے ہم عمل کریں، محض شکایت نہیں -مسائل کو شکایات نہیں، حل کی ضرورت ہوتی ہے، ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب ایک کھڑکی کھلتی ہے، اور ان کے پاس اثر انداز ہونے کا منفرد موقع ہوتا ہے، کامیابی کے لیے ہمیں  تیاری، اور ہمت کے ساتھ کام کرنا چاہیے ، اگر آپ اسے پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی کھڑکی اب کھلی ہوئی ہے، آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اسی پر آپ کی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے۔

زندگی گزارنے کا مطلب انتخاب کرنا ہے – حالات کا شکار بننے کا انتخاب یا حالات کے بارے میں کچھ کرنے اور ان کے ‘ماسٹر’ بننے کا انتخاب، ہم یہ انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہیں – ‘شکار’ یا ‘ماسٹر’ بننے کے لیے – لیکن ہر انتخاب کا فائدہ الگ ہوتا ہے ، دونوں موقف معاشرے، ماحول، تنظیم، افراد، قوانین کے اصولوں کے پابند ہیں ، لیکن ہماری ترقی اور خوشی کے لحاظ سے ہمارا انتخاب بڑے مختلف نتائج مرتب کرتا ہے ، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انتخاب کی آزادی کا مطلب ہے کہ  وہ انتخاب نتائج سے آزاد ہونگے ، یہ ایک  غلط فہمی اور افسانہ ہے اور تمام افسانوں کی طرح یہ بھی جھوٹ ہے، ہمیں انتخاب کرنے کی آزادی ہے لیکن ہر انتخاب کی ایک قیمت ہوتی ہے، بے وقوف لوگ پہلے قیمت معلوم کیے بغیر انتخاب کرتے ہیں اور پھر جب انتخاب کی  قیمت کی  ادائیگی کا وقت آتا ہے تو حیران اور مایوس ہوتے ہیں۔

‘شکار’ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مشکلات اور مصائب کے بارے میں شکایت کرتے ہیں، بہانے سوچتے ہیں، دوسروں پر الزام لگاتے ہیں، امید کھو دیتے ہیں، اور فنا ہو جاتے ہیں، ‘شکار,’ افراد، گروہ، یا قومیں ہو سکتی ہیں، ‘شکار’  ذہنیت کا موقف’ ایک ہی ہوتا ہے – شکایت اور الزام، جب ‘شکار’  ذہنیت  رکھنے والے لوگ اپنے آپ کو مشکلات میں پاتے ہیں، تو وہ  کسی اور کو قصوروار ٹھہرانے کے لیے قربانی کے بکرے ڈھونڈتے ہیں ، وہ سازشی نظریات ایجاد کرتے ہیں، وہ ‘محصور’ ذہنیت کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں، وہ ہر کسی کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے مسائل کی واحد وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر کوئی انہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے، وہ یہ سوچنے سے باز نہیں آتے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس پر الزام لگاتے ہیں، ان کے مسائل اب بھی موجود ہیں ، اگر یہ آپ پر لاگو ہوتا ہے، تو فوراً جاگ جائیں۔

دوسری طرف ’ماسٹر‘ وہ لوگ ہیں جو مشکل اور مصیبت کا سامنا  ہونے پر پہلے اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس صورت حال میں کیسے اور کیوں آئے، اپنی ذمہ داری کے مالک ہیں اور پھر اس صورت حال کے لیے حل تلاش کرتے ہیں، ان میں نئے طریقے آزمانے کی ہمت ہوتی ہے ، ماسٹرز اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ، کم از کم جزوی طور پر، اگر مکمل طور پر نہیں، تو وہ انتخاب کا نتیجہ ہے جو ہم نے شعوری یا غیر شعوری طور پر کیا ہے ،   یہ کامیابی کا راستہ ہے کیونکہ اگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے صورتحال پیدا کی ہے، تو ہم اس کا حل بھی نکال سکتے ہیں۔

‘ماسٹرز’ کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر مشکل میں وہ فوری طور پر اپنے آپ سے اہم سوال پوچھتے ہیں: ‘میں اس صورت حال میں کیا کر سکتا ہوں؟’ یہ بذات خود ایک زبردست بااختیار ذہنیت ہے جو انسان کو اس کی ترقی کی راہ میں خود کو محدود کرنے والی رکاوٹوں کے طوق سے آزاد کرتی ہے، ایک ‘ماسٹر’ کبھی نہیں کہتا، ‘میں نہیں کر سکتا’، بلکہ وہ کہتا ہے ، “مجھے نہیں معلوم کہ میں کر سکتا ہوں یا نہیں!” یہی حقیقت ہے، اور اس میں اور نہیں کر سکتا کہنے میں  آسمان اور زمین کا فرق ہے، تو آپ اپنے آپ سے پوچھیں، “آج مجھے جن چیلنجوں کا سامنا ہے، مجھے کیا کرنے کی ضرورت ہے اگر میں ‘ماسٹر’ بننا چاہتا ہوں نہ کہ ‘شکار’؟ مجھے کامیاب ہونے کے لیے کون سی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے؟  اسی طرح، زندگی میں ہماری کامیابی کی دوڑ میں، ہمیں اسلام کے قوانین کو نظر انداز کرنے کی آزمائش ہو سکتی ہے – ہم اکثر  اس غلط فہمی کے شکار ہو جاتے ہیں کہ جو بھی ہاتھ لگے اسے حاصل کرنا چاہیے  چاہے وہ الله تعالیٰ  کے حکم کے مطابق ہو یا نہیں. یہ شیطان کا اور ہمارے اپنے زہن کی حرص اور ہوس کا نتیجہ ہے- مسلمان ہونے کے معنی ہیں کہ ہم ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے. اور اس وجہ سے الله تعالیٰ  کے  احکام اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّتوں پر چلنے میں ہی ہماری دنیوی اور اخروی کامیابی ہے۔

تعارف مصنف

مرزا یاور بیگ امریکہ میں رہتے ہیں اور مغربی میساچوسٹس کے اسلامی مرکز میں خطیب ہیں، وہ بزنس کنسلٹنٹ اور یاور بیگ اینڈ ایسوسی ایٹس کے صدر ہیں،  وہ تین براعظموں میں قیادت کی تعلیم دیتے ہیں اور چالیس کتابوں کے مصنف ہیں، ان کاتخصص اسلامی تعلیمات کی ان اصطلاحات میں تشریح کرنا ہے جو ہمارے جدید دور میں قابل فہم ہیں، ان کی فکر یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ہم اسلام کے مطابق اپنی کامیاب زندگی کیسے گزار سکتے ہیں۔

 
0 0 votes
Article Rating

Subscribe
Notify of
guest

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x